( I sincerely apologize to my worthy readers who do not understand Urdu, some Urdu admirers were insisting my complete Urdu post )
میرا یہ معمولی سا بلاگ اور میری کوشش میرے اندر دفن سوچوں اورتجربات کی منظر کشی کو کہا جا سکتا ہے . انٹرنیٹ ایک عجیب ایجاد ہے جو چاہے لکھ دو اور جو چاہے لائک کر لو اور بغیر کسی پابندی کے لکھتے جاؤ
ایک مکمل بے یقینی اور خوف سے بھرپور احساس کے ساتھ میں آپکو اِس بلاگ کی پہلی اُرْدُو پوسٹ پیش کر رہا ہوں . اپنی اُرْدُو کی سنگین کمزوریوں کے باوجود میری یہ نڈر اور حقیر پیشکش کو مجھے ایک دیوانہ اوردل لاچار سمجھ کر خدارا نظرانداز کیجیۓ.
میری ڈیجیٹل فوٹوگرافی کو میں نے اُرْدُو شاعری کے ساتھ سادگی سے فریم کیا ہے ، چاہیں تو اسے اپنے دِل کے کسی بِیابان اور خاموش اجاڑ سے تیخانے میں رکھ دین یا پِھرردی والے کو بخش دین .
چمن میری امیدوں کا خزاں رسیدہ ہے
کہاں ہو اے بہاروں اب تو آؤ تموہ ستارہ ہے چمکنے دو آنکھوں میں
کیا ضرورت ہے اسے جسم بنا کے دیکھوںچل اکیلا ، چل اکیلا ، چل اکیلا
تیرا میلا پیچھے چھوٹا راہی چل اکیلابڑے خلوص سے دعوت تو اس نے بھیجی
پر اسکی بزم میں آنا عجیب لگتا ہےنازکی اسکے لب کی کیا کہیہ
پنکھڑی اک گلاب سی ہےمیں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہیں ہوئی
وہ آ کے میرے شہر سے چلا بھی گیاآج قاتلوں کی محفل سجا کے بیٹھا ہوں
ہے تجھے بھی دعوت بےنقاب آنے کیقاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب یاد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہے رات بھروقت کرتا جو وفا آپ ہمارے ہوتے
ہم بھی اوروں کی ترہا آپ کو پیارے ہوتےجس باغ میں سبھ کو جاتی ہو
جس سبزے پر تم چلتی ہو
جو شاخ تمھیں چھو جاتی ہے
جو خوشبوتم کو بھاتی ہے
وہ اوس تمھارے چہرے پر
جو کترا کترا گرتی ہے
یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں
تیرا نام نہیں لونگا، نہیں لونگا، بس تجھ کو شام کہوں گا
جس گلی میں تیرا گھر نہ ہو بالما
اس گلی سے ہمیں تو گزرنا نہیں
جو گلی تیرے دوارے پے جاتی نہ ہو
اس گلی سے ہمیں تو گزرنا نہیں
اے ماں، مجھے پھر سے میرا بستہ دے دے
کے دنیا کا دیا سبق مشکل بہت ہے
وہ شخص خزاں رت میں بھی محتاط ہے کتنا
سوکھے ہوے پھولوں کو بکھرنے نہیں دیتا
یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہے تمھیں
خموشیوں کی صدائیں بلا رہی ہے تمھیں
تمہاری زلفوں سے خوشبو کی بھیک لینے کو
جھکی جھکی سی گھٹائیں بلا رہی ہے تمھیں
خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک
گزر ہی جائے گی یہ رت بھی حوصلہ رکھنا
گھر سے نکل کھڑے ہوے پھرپوچھنا ہی کیا
منزل کہاں سے پاس پڑے گی کہاں سے دور
وہ ہے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا
زندگی مجھے تیرا اعتبار نہ رہا، اعتبار نہ رہا
آج منزل پے کھڑا ہے وہ نئی شان کے ساتھ
تم ہنستے تھے جس رستے میں گرا کے لوگوں کو
اسے تراش کے ہیرا بنا دیا ہم نے فراز
مگر اب یہ سوچتے ہیں اسے خریدیں کیسے
تیری تصویر سے مانوس ہیں آنکھیں میری
میں کسی اور کو دیکھوں بھی تو دیکھوں کیسے
کاش میں لوٹ جاؤں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھی، نہ کوئی ضروری تھا
شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا جہاں خدا نہیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
میری یہ کوشش بھی شاید میری اردو کی خامیوں کو چھپا نہ سکے.لاہور کے ایک نامی گرامی اردو میڈیم اسکول میں پڑھنے کے باوجود میں اردو میں کبھی اچھے نمبر نہ لے سکا، لیکن اس کا ہر گز یہ معنے نہیں کے میں اردو سے دور رہنا چاہتا ہوں.
تمام اوپر پوسٹ کی گئی تصاویر میری اپنی فوٹو گرافی ہے اور اشعار مختلف شعرا کے بغیر انکی اجازت کے لیے گئے ہیں. میرا ایک دوست کہتا رہا کے کچھ مختلف لکھو اور وو بھی اردو میں، میں تمام تحریر اردو میں تو نہ لکھ سکا، اسی لیے مجھے اپنی فوٹو گرافی کا سہارا لینا پڑا…
اب یہ پوسٹ آپکے حوالے کی جاتی ہے….
وہ سمجھ نہ پائیں گے جو ہم تحریر کرتے ہیں
ہم احساس لکھتے ہیں وہ الفاظ پڑھتے ہیں